جب آفتاب سے چہرا چھپا رہی تھی ہوا
جب آفتاب سے چہرا چھپا رہی تھی ہوا
نظر بچا کے ترے شہر جا رہی تھی ہوا
میں اس کو روتا ہوا دیکھتا رہا چپ چاپ
چنبیلی گھاس پہ ٹپ ٹپ گرا رہی تھی ہوا
وہ ماں ہے آب رواں کی تبھی سمندر کو
اٹھا کے گود میں جھولا جھلا رہی تھی ہوا
وہ خواب تھا یا سفر آنے والے موسم کا
مری پڑی تھی زمیں زہر کھا رہی تھی ہوا
نہ جانے دوش پہ کس کو اٹھا کے رات گئے
طبیب شہر کا در کھٹکھٹا رہی تھی ہوا
میں گرم و سرد کو تقدیر سمجھے بیٹھا رہا
نظام موسم ہستی چلا رہی تھی ہوا
تمام عمر میں سمجھا ہوا مخالف ہے
مرے چراغ میں خود کو جلا رہی تھی ہوا
- کتاب : Tamasha (Pg. 144)
- Author : Hassan Shahnawaz Zaidi
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.