جب اپنے وعدوں سے ان کو مکر ہی جانا تھا
جب اپنے وعدوں سے ان کو مکر ہی جانا تھا
ہمیں بھی ساری حدوں سے گزر ہی جانا تھا
لہو کی تاب سے روشن تھا کاروان حیات
فریب دینے سے بہتر تو مر ہی جانا تھا
نہ رکھ سکے سر سودائے عشق کی توقیر
بلند رکھتے خوشی سے جو سر ہی جانا تھا
لہو کی آگ اسیری میں سرد ہو کے رہی
اسی لیے ہمیں زنداں سے گھر ہی جانا تھا
جو انتشار وجود زیاں ہی تھا مقسوم
چراغ نور کی صورت بکھر ہی جانا تھا
نہ مل سکی کہیں گھر سے سوا ہمیں وحشت
پلٹ کے اس لیے قدموں کو گھر ہی جانا تھا
ہوئی جو زیر و زبر زیست یوں مسائل سے
غرور عشق کا دریا اتر ہی جانا تھا
اگرچہ ملتا بھی ان کو انہی سا سودائی
فریب دوستی خالدؔ کے سر ہی جانا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.