جب بھی بھولے سے کبھی لب پہ ہنسی آئی ہے
جب بھی بھولے سے کبھی لب پہ ہنسی آئی ہے
غم کی تصویر مرے ذہن پہ لہرائی ہے
اس قدر چرچا ہے کچھ آمد فصل گل کا
خار کو خار نہ کہنے ہی میں دانائی ہے
بن گئی خار سر شاخ کلی وہ اک دن
پھول بننے کی تمنا میں جو مرجھائی ہے
آنکھ نے دیکھا نہیں ایک بھی گل خندہ بہ لب
صرف کانوں نے سنا ہے کہ بہار آئی ہے
دن تو سایوں کے تعاقب میں گزارا لیکن
پھر وہی رات وہی میں وہی تنہائی ہے
جب تھا میں گرم سفر سایوں سے کتراتا تھا
تھک گیا ہوں تو مجھے شعلوں پہ نیند آئی ہے
گو میں بیگانہ ہوں خود ذات سے اپنی سیمابؔ
میری فطرت میں مگر انجمن آرائی ہے
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 175)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.