جب بھی وہ آسماں جناب آئے
جب بھی وہ آسماں جناب آئے
سایہ کرتا ہوا سحاب آئے
حرف مٹنے لگے ہیں ذہنوں سے
پھر کوئی صاحب کتاب آئے
جب کو ڈوبے ہوئے زمانہ ہوا
یاد کچھ ایسے آفتاب آئے
زندگی بحر بیکراں ہی سہی
ہم تو بس صورت حباب آئے
جیسے خالی مکاں پہ دستک ہو
در و دیوار سے جواب آئے
ورق زندگی پلٹتے رہے
کامرانی کا کوئی باب آئے
سارے مضموں محبتوں پر ہوں
کاش ایسا کوئی نصاب آئے
میری ناراضگی ٹھہر نہ سکی
ہاتھ میں لے کے وہ گلاب آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.