جب بھی زلفوں کو ترے رخ پہ بکھرتے دیکھا
جب بھی زلفوں کو ترے رخ پہ بکھرتے دیکھا
ہو کے شرمندہ گھٹاؤں کو گزرتے دیکھا
دل سے چپ چاپ تجھے جب بھی گزرتے دیکھا
یاد ماضی کا ہر اک نقش ابھرتے دیکھا
کتنے خوابوں کو شب و روز بکھرتے دیکھا
پھر بھی اک پل نہ زمانے کو ٹھہرتے دیکھا
بات کچھ ان کی جوانی پہ ہی موقوف نہیں
چڑھتے دریا کو بھی اک روز اترتے دیکھا
آئی وہ روشنی حالات کے بازاروں میں
اپنے سائے سے بھی ہر شخص کو ڈرتے دیکھا
کونپلیں پھوٹی ہیں شاخوں پہ نئے موسم کی
جس گھڑی جور خزاں حد سے گزرتے دیکھا
بحر الفت میں تصور ہی کہاں ساحل کا
ڈوبنے والے کو ہی پار اترتے دیکھا
راحتیں موت ہیں انسان کے حق میں عارفؔ
دل کی فطرت کو مصائب میں سنورتے دیکھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.