جب دست جنوں جیب و گریباں سے چلا ہے
جب دست جنوں جیب و گریباں سے چلا ہے
رخ میں نے رگ جاں کی طرف موڑ دیا ہے
اے دل یہ کوئی کھیل نہیں راہ وفا ہے
سو نقش مٹے ہیں تو کہیں ایک بنا ہے
پروانہ کچھ اس طور سے رہ رہ کے جلا ہے
مرنے کی اداؤں میں بھی جینے کی ادا ہے
یہ ابر یہ برسات یہ بھیگی ہوئی راتیں
توبہ نے کہاں لا کے مجھے چھوڑ دیا ہے
تم کیوں مجھے آرام سے مرنے نہیں دیتے
اے چارہ گرو رحم کرو وقت دعا ہے
معلوم تو ہوتی ہی نہیں تیری حقیقت
محسوس یہ ہوتا ہے کہ تو دیکھ رہا ہے
زاہدؔ ہے برا اور نہ ہم رند برے ہیں
منزل ہے وہی ایک مگر راہ جدا ہے
جس میں غم جاناں کی لطافت ہے تبسمؔ
ہم نے تو کئی بار وہی زہر پیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.