جب دل میں غرور آئے تو دانائی بھی کیا ہے
جب دل میں غرور آئے تو دانائی بھی کیا ہے
جب رات اندھیری ہو تو بینائی بھی کیا ہے
جب ڈوبنا ٹھہرا ہے تو طوفاں کا کسے خوف
جب اشک سمندر ہوں تو گہرائی بھی کیا ہے
جب زخم ہوں سینے میں تو پھر درد ہے کیا چیز
گلشن میں مرے موج ہوا لائی بھی کیا ہے
پھر غیر کے ہر جھوٹ پہ کرتا ہے یقیں وہ
پھر شوق کو سکتہ ہے کہ سچائی بھی کیا ہے
پھر عمر گریزاں نے کہا جاؤ چلے جاؤ
کیا اس سے کہو گے وہاں سنوائی بھی کیا ہے
پھر دل نے کہا ہنس کے وہ صحرا ہو قفس ہو
جب اس سے بچھڑنا ہے تو تنہائی بھی کیا ہے
پھر ذکر مرا سن کے کہا اس نے رئیسؔ ایک
بس چاک گریباں ہے وہ سودائی بھی کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.