جب اک چراغ راہ گزر کی کرن پڑے
ہونٹوں کی لو لطیف حجابوں سے چھن پڑے
شاخ ابد سے جھڑتے زمانوں کا روپ ہے
یہ لوگ جن کے رخ پہ گمان چمن پڑے
یہ کس حسیں دیار کی ٹھنڈی ہوا چلی
ہر موجۂ خیال پہ صد ہا شکن پڑے
یہ کون ہے لبوں میں رسیلی رتیں گھلیں
پلکوں کی اوٹ نیند میں گلگوں گگن پڑے
اک پل بھی کوئے دل میں نہ ٹھہراؤ رہ نورد
اب جس کے نقش پا میں چمن در چمن پڑے
اک جست اس طرف بھی غزال زمانہ رقص
رہ تیری دیکھتے ہیں خطا و ختن پڑے
جب انجمن توجہ صد گفتگو میں ہو
میری طرف بھی اک نگہ کم سخن پڑے
صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھے
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انہیں دے دوں جو بن پڑے
اے شاطر ازل ترے ہاتھوں کو چوم لوں
قریے میں میرے نام جو دیوانہ پن پڑے
اے صبح دیر خیز انہیں آواز دے جو ہے
اک شام زود خواب کے سکھ میں مگن پڑے
امجدؔ طریق مے میں ہے یہ احتیاط شرط
اک داغ بھی کہیں نہ سر پیرہن پڑے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.