جب جاں پہ لب جاناں کی مہک اک بارش منظر ہو جائے
جب جاں پہ لب جاناں کی مہک اک بارش منظر ہو جائے
ہم ہاتھ بڑھائیں اور اس میں مہتاب گل تر ہو جائے
کب دل کا لڑکپن جائے گا ہر وقت یہی ہے ضد اس کی
جو مانگے اسی پل مل جائے جو سوچے وہیں پر ہو جائے
اک عالم جاں وہ ہوتا ہے تخصیص نہیں جس میں کوئی
اس وقت ہماری بانہوں میں جو آئے وہ دلبر ہو جائے
آشوب محبت کا آنسو رکھتا ہے تلون فطرت میں
آنکھوں میں رہے تو قطرہ ہے ٹپکے تو سمندر ہو جائے
جتنا بھی سمیٹیں آنکھوں میں رہتا ہی نہیں کچھ یاد ہمیں
یا رب وہ طلسم عارض و لب اک روز تو ازبر ہو جائے
جمشیدؔ متاع حسن جہاں سب اہل نظر کا حصہ ہے
جو چاہے قلندر ہو جائے جو چاہے سکندر ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.