جب کبھی بند کرے مٹھیاں باہر نکلے
جب کبھی بند کرے مٹھیاں باہر نکلے
سب کے ہاتھوں میں وہی دھوپ کے منظر نکلے
سب کی آنکھوں میں پھنسے تھے وہی پتھرائے سے خواب
سب کے سب لوگ تمناؤں کے آذر نکلے
ہے خرابی اسی تعمیر میں مضمر تیری
مور خوش فہم نہ اترا کہ ترے پر نکلے
خاک ہی کر دے مجھے گرم نگاہی اس کی
ایک ارمان تو تیرا دل مضطر نکلے
روح کو کر گئے روشن حد ادراک تلک
زخم میرے مری امید سے بڑھ کر نکلے
یوں بھی سچ ہے کہ ہر اک گام پہ اک منزل تھی
پھر بھی گم کردہ تری راہ میں اکثر نکلے
کن فسوں زاد جہانوں کا سفر تھا وصفیؔ
ہم سمجھ بیٹھے جنہیں دشت سمندر نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.