جب خبر ہی نہ کوئی موسم گل کی آئی
کاغذی پھول پہ کچھ سوچ کے تتلی آئی
سبز پتوں نے بھی شاخوں سے بغاوت کر دی
آج اس شہر میں کس زور کی آندھی آئی
اب یہ بستی ہوئی دیواروں کی کثرت کا شکار
اب یہاں رہنے میں بے طرح خرابی آئی
قہقہہ شب نے لگایا ہے بڑے طنز کے ساتھ
صبح جب اپنی رہائی پہ بھی روتی آئی
آنکھ اک ابر کے ٹکڑے کو ترس جاتی تھی
بارشوں سے جہاں اب اتنی تباہی آئی
رات بھر صبح کی امید پہ زندہ تھا مریض
صبح ہوتے ہی اسے آخری ہچکی آئی
مر گیا حبس کی بستی میں جوں ہی کوئی نسیمؔ
نوحہ خوانی کو وہاں تازہ ہوا بھی آئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.