جب خلاف مصلحت جینے کی نوبت آئی تھی
جب خلاف مصلحت جینے کی نوبت آئی تھی
ڈوب مرتے ڈوب مرنے میں اگر دانائی تھی
میں تو ہر ممکن اسے لاتا رہا تیرے قریب
کیا کروں اے دل تری تقدیر میں تنہائی تھی
خوف کا عفریت سانسیں لے رہا تھا دشت میں
رات کے چہرے پہ سناٹے کی دہشت چھائی تھی
ایک یہ نوبت کہ وحشت ڈھونڈھتا پھرتا ہوں میں
ایک وہ موسم کہ گلشن کی ہوا صحرائی تھی
آسماں سے گر رہی تھی شوخ رنگوں کی پھوار
میری آنکھوں میں ترے دیدار کی رعنائی تھی
شب گزیدوں سے حساب غم چکانے کے لیے
تم نہ آئے تھے مگر صبح قیامت آئی تھی
میں کدھر جاتا کہ ہر جانب زبان خلق تھی
میں کہاں چھپتا کہ میرے کھوج میں رسوائی تھی
دہر میں مشہور تھی شاہدؔ مری بے چارگی
اور ان دیکھے جہانوں پر مری دارائی تھی
- کتاب : meyaar (Pg. 356)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.