جب کھلے مٹھی تو سب پڑھ لیں خط تقدیر کو
جب کھلے مٹھی تو سب پڑھ لیں خط تقدیر کو
جی میں آتا ہے مٹا دوں ہاتھ کی تحریر کو
جسم سناٹے کے عالم سے گزرتا ہی نہیں
بے حسی نے اور اور بوجھل کر دیا زنجیر کو
بہتا دریا ہے کہ آئینہ گری کا سلسلہ
دیکھتا رہتا ہوں پانی میں تری تصویر کو
صبح نو نے کاٹ ڈالے شام ظلمت کے حصار
کس طرح روکے کوئی کرنوں کی جوئے شیر کو
دھڑکنوں کی چاپ رک جائے تو آئے نیند بھی
ساتھ لے کر پھر رہا ہوں شور دار و گیر کو
جب معانی کا اجالا ہی نہ ہو الفاظ میں
کیوں کریں روشنی سخن کی شمع بے تنویر کو
دھند سائے خوف گہری چپ ہوا کی بے رخی
کیسے عالم میں چلا ہوں دہر کی تسخیر کو
اپنی پیشانی پہ شہرت کی لکیریں کھینچ لے
اپنے سینے سے لگا لے کتبۂ تشہیر کو
عکس آئینے سے پہلے تھا تو پھر صدیقیؔ کیوں
خواب سے پہلے نہ دیکھا خواب کی تعبیر کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.