جب کہ انسان کی تقدیر بگڑ جاتی ہے
جب کہ انسان کی تقدیر بگڑ جاتی ہے
جو بناتا ہے وہ تدبیر بگڑ جاتی ہے
خط لکھوں ان کو تو تحریر بگڑ جاتی ہے
کچھ کہوں منہ سے تو تقریر بگڑ جاتی ہے
دیکھ کر مجھ کو بل آتا ہے تری ابرو میں
سخت جاں وہ ہوں کہ شمشیر بگڑ جاتی ہے
صفت غیر مجھی سے ہے انہیں باتوں پر
میری تیری بت بے پیر بگڑ جاتی ہے
بد مزاجی کی یہ صورت ہے کہ مانی سے بھی
کھنچتے کھنچتے تری تصویر بگڑ جاتی ہے
جب سے اس زلف پریشاں کا ہے سودا سر میں
مری ہر خواب کی تعبیر بگڑ جاتی ہے
مری تقدیر ہے برہم تو بوقت فریاد
نالۂ آہ کی تاثیر بگڑ جاتی ہے
ہاتھ رکھتا ہوں جو میں سر پہ قسم کھانے کو
آپ کی زلف گرہ گیر بگڑ جاتی ہے
وصل کا کر کے وہ اقرار مکر جاتے ہیں
ہائے بن بن کے یہ تقدیر بگڑ جاتی ہے
کیا ہوا وہ جو نہ دعوت میں بھی آئے صابرؔ
یہ تو تدبیر ہے تقدیر بگڑ جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.