جب کہ ساری کائنات اس کی نگہبانی میں ہے
جب کہ ساری کائنات اس کی نگہبانی میں ہے
دل ازل ہی سے نہ جانے کیسی حیرانی میں ہے
میری فطرت بھی تو شامل میری نادانی میں ہے
لغزش آدم جو پنہاں خون انسانی میں ہے
جانے کس ہنگام میں ڈالی گئی بنیاد دل
دل جو اب تک مبتلا رنج و پریشانی میں ہے
دور کر دیتا ہے بس اک پل میں سب شکوے گلے
یہ کرشمہ بھی کسی کی آنکھ کے پانی میں ہے
کیا سمجھ پائیں گے یہ اہل خرد اس راز کو
لطف دانائی میں کب وہ ہے جو نادانی میں ہے
دل میں آتا ہے حصار ہر طلب کو توڑ دوں
ایسی خواہش بھی تمناؤں کی طغیانی میں ہے
ہو گئی آدم سے یہ کیسی خطا جس کے عوض
نسل آدم آج تک ایسی پشیمانی میں ہے
کوئی صورت جب نہ بن پائی تو رونا آ گیا
کچھ تو تسکین غم دل اشک افشانی میں ہے
گر ملے خود میں سمو لیں سارے انسانوں کا درد
اس قدر وسعت ہماری تنگ دامانی میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.