جب مفکر مرے انداز بیاں تک پہنچے
جب مفکر مرے انداز بیاں تک پہنچے
میری حالت مرے ہر راز نہاں تک پہنچے
وادیٔ عشق میں ہم لوگ جہاں تک پہنچے
کوئی مجنوں نہ کوئی قیس وہاں تک پہنچے
طفل باقی نہ رہے پیر و جواں تک پہنچے
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
ایسے شدت سے گلے اس نے لگایا مجھ کو
تیر جیسے کوئی آغوش کماں تک پہنچے
کوچۂ یار سے غصے میں نکل آیا تھا
اس نے پوچھا بھی نہیں آپ کہاں تک پہنچے
اپنے دل کے کسی گوشے میں ہمیں رہنے دے
بڑی مشکل سے مری جان یہاں تک پہنچے
یہ کوئی عشق نہیں ہم جو کیا کرتے ہیں
عشق ایسا ہو کہ سر نوک سناں تک پہنچے
چشم تاریخ نہ دیکھے گی اب ایسے پیاسے
ایک قطرہ نہ پیا آب رواں تک پہنچے
سلب کر لے گا خدا آپ سے ساری خوشیاں
تلخ الفاظ اگر باپ یا ماں تک پہنچے
نفس قابو میں رہے ہوش رہے عزت کا
جب کوئی ابن فلاں بنت فلاں تک پہنچے
اپنے معشوق سے میں عشق کا اظہار کروں
میری آواز جو دہلیز سماں تک پہنچے
داد و تحسین سے دنیا نے نوازا مجھ کو
شعر بن کر جو مرے درد زباں تک پہنچے
بعد مرنے کے یہ مرقد میں پکارا محورؔ
خیر سے دوستو ہم اپنے مکاں تک پہنچے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.