جب سمندر مری آنکھوں میں سمٹ جاتا ہے
جب سمندر مری آنکھوں میں سمٹ جاتا ہے
تشنگی تیرا بھرم اور بھی گھٹ جاتا ہے
جب بھی سچ کے لیے آواز اٹھاتا ہوں میں
میری گردن سے کوئی سانپ لپٹ جاتا ہے
کوششیں برسوں برس جینے کی کرتا ہے مگر
آدمی وقت سے پہلے ہی نبٹ جاتا ہے
اونچی آواز میں اولاد کے چلانے پر
بوڑھے ماں باپ کا دل رنج سے پھٹ جاتا ہے
ہم ہیں انسان جو نفرت کی زباں بولتے ہیں
ایک طوطا بھی سبق پیار کا رٹ جاتا ہے
ایک ہم ہیں کے جو ہر بات پہ کرتے ہیں یقیں
ایک وہ ہے کہ جو وعدے سے پلٹ جاتا ہے
جس طرح سوتے ہوئے رات گزر جاتی ہے
ٹھیک ویسے ہی برا وقت بھی کٹ جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.