جب سے نادانوں نے خود کو فانی کہنا چھوڑ دیا
جب سے نادانوں نے خود کو فانی کہنا چھوڑ دیا
ہم نے اپنی حیرت کو حیرانی کہنا چھوڑ دیا
دریا تیری عظمت پر بھی یہ الزام تو آئے گا
آخر پیاسے لوگوں نے کیوں پانی کہنا چھوڑ دیا
سوچو کتنی مایوسی کا موسم ہے اس بستی میں
لوگوں نے بے معنی کو بے معنی کہنا چھوڑ دیا
میرا ان طوفانوں سے تو بس اتنا سا جھگڑا ہے
میں نے تیز ہواؤں کو طوفانی کہنا چھوڑ دیا
جن کی رعنائی کے پیچھے سو سو جھوٹ کی پرتیں ہیں
ہم نے ایسے چہروں کو نورانی کہنا چھوڑ دیا
مانا اس نے سبز فضائیں صحرا صحرا کر ڈالیں
تم نے کیوں ویرانی کو ویرانی کہنا چھوڑ دیا
میرے غم کا شاید تم کو اس سے کچھ اندازہ ہو
میں نے اس کی چونر کو اب دھانی کہنا چھوڑ دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.