جب سے امید باندھی پتھر پر
جب سے امید باندھی پتھر پر
دھول سی جم گئی مقدر پر
کس نے چادر دھویں کی تانی ہے
میرے جنت مثال منظر پر
میرے چارہ گروں نے رکھا ہے
ایک اک راستے کو ٹھوکر پر
آسماں کی طلب میں کٹ کر بھی
پھڑپھڑاتے رہے برابر پر
پاس تیر و کماں کے ہوتے ہوئے
خوف طاری ہے میرے لشکر پر
جب گھڑی امتحان کی آئی
میں نے رکھ دی زباں اخگر پر
قید کمرے میں ہو گیا ہوں نبیلؔ
پھینک کر میں گلی سے باہر پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.