جب شمع ہنسی تو پروانے معصوم شرارت کر بیٹھے
جب شمع ہنسی تو پروانے معصوم شرارت کر بیٹھے
نازک سا جگر اور یہ جرأت شعلہ سے محبت کر بیٹھے
اللہ رے جنون خود غرضی آزاد ہوئے جب اہل قفس
تعمیر نشیمن پر قرباں گلشن کی لطافت کر بیٹھے
دیکھا جو انہیں کچھ کہہ نہ سکے کیا جانئے کیا دل میں آیا
اشکوں کے سہارے چپکے سے اظہار محبت کر بیٹھے
رونا تو لکھا تھا قسمت میں ہاں ان سے ملے جب آئی ہنسی
کمبخت یہ آنسو بھی نہ تھمے توہین مسرت کر بیٹھے
گزرے گی جو دل پر جھیلیں گے ہنس ہنس کے اجل سے کھلیں گے
جو حشر بھی ہوگا دیکھیں گے اب ہم تو محبت کر بیٹھے
جینے کا سلیقہ تھا جن کو وہ موت کے ہاتھوں مٹ نہ سکے
تدبیر پہ جن کا بس نا چلا قسمت کی شکایت کر بیٹھے
پھولوں کی جو رگ رگ میں ہے رواں وہ خون ہے قلب خار میں بھی
گل پر ہو اگر یہ راز عیاں کانٹے سے محبت کر بیٹھے
تاروں کی طرح روشن ہی رہے وہ سبزہ و گل کے دامن پر
جو قطرۂ شبنم سورج کی کرنوں سے بغاوت کر بیٹھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.