جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی
جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی
یہ زندگی مجھے بھی دشوار لگ رہی تھی
مجھ پر جھکی ہوئی تھی پھولوں کی ایک ڈالی
لیکن وہ میرے سر پر تلوار لگ رہی تھی
چھوتے ہی جانے کیسے قدموں میں آ گری وہ
جو فاصلے سے اونچی دیوار لگ رہی تھی
شہروں میں آ کے کیسے آہستہ رو ہوا میں
صحرا میں تیز اپنی رفتار لگ رہی تھی
لہروں کے جاگنے پر کچھ بھی نہ کام آئی
کیا چیز تھی جو مجھ کو پتوار لگ رہی تھی
اب کتنی کار آمد جنگل میں لگ رہی ہے
وہ روشنی جو گھر میں بے کار لگ رہی تھی
ٹوٹا ہوا ہے شاید وہ بھی ہمارے جیسا
آواز اس کی جیسے جھنکار لگ رہی تھی
عالمؔ غزل میں ڈھل کر کیا خوب لگ رہی ہے
جو ٹیس میرے دل کا آزار لگ رہی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.