جب تلک وہ ساتھ تھا اک گنگناتی دھوپ تھی
جب تلک وہ ساتھ تھا اک گنگناتی دھوپ تھی
ہر طرف ہی سردیوں کی مسکراتی دھوپ تھی
خواب میں آیا تھا کوئی روشنی پہنے ہوئے
اور چہرے پر سنہری جھلملاتی دھوپ تھی
کھل اٹھے تھے زخم سارے سرخ پھولوں کی طرح
وہ تمہاری یاد تھی یا معجزاتی دھوپ تھی
چل دیا تھا میں اکیلا خود سے ملنے کے لیے
دور تک بنجر زمیں تھی چلچلاتی دھوپ تھی
شام کی پرچھائیوں میں راز یہ مجھ پر کھلا
اس زمیں پر ہر طرف سائے بناتی دھوپ تھی
آسماں سے جیسے اتریں تتلیوں کے قافلے
بادلوں کی اوٹ سے یوں چھن کے آتی دھوپ تھی
اب تو آصفؔ کہر نے ڈیرے جمائے ہیں مگر
ہر طرف اس کی ہنسی کی چہچہاتی دھوپ تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.