جب وہ یوسف ہی نہ ہو مصر کے بازار کے پاس
جب وہ یوسف ہی نہ ہو مصر کے بازار کے پاس
پھر بھلا کون سا جذبہ ہو خریدار کے پاس
پہلے ہر شخص تھا اخلاص و وفا کا پیکر
اب یہ دولت بھی کہاں ملتی ہے دو چار کے پاس
ہم سفر میرے عقیدت سے قدم چھونے لگے
مجھ کو دیکھا جو کبھی جبہ و دستار کے پاس
اب تو اپنوں میں مروت کی ہے دولت مفقود
یہ خزینہ بھی ہمیں ملتا ہے اغیار کے پاس
حسن ہی حسن ہے محفل میں تمہاری لیکن
تاب دیدار نہیں طالب دیدار کے پاس
مفلسی اپنوں کو بیگانہ بنا دیتی ہے
کوئی آتا نہیں گرتی ہوئی دیوار کے پاس
مسکراتا ہے غم زیست میں منظرؔ ایسے
پھول جس طرح گلستاں میں کھلے خار کے پاس
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.