جبین ناز پہ گرد سفر سجا بھی چکے
جبین ناز پہ گرد سفر سجا بھی چکے
کہ تیرے شہر سے خانہ بدوش جا بھی چکے
پکارتے ہو ہمیں کس لیے سر مقتل
خراج لے بھی چکے ضبط آزما بھی چکے
ترے خیال کی ضد ہے کہ ہم رکاب رہے
کہ ہم تو خیمۂ دل کے دیے بجھا بھی چکے
جو بے چراغ بھٹکتے تھے تیری گلیوں میں
گزر کے جان سے اپنا سراغ پا بھی چکے
انہیں بتانے چلے ہیں وہ حرمت پیماں
جو تیرے ہجر سے عہد وفا نبھا بھی چکے
وہ جن کی آنکھوں میں روشن تھے زندگی کے چراغ
وہ لوگ جا بھی چکے نقش پا مٹا بھی چکے
رہے ہیں وحشت زنداں میں سر بکف رقصاں
ہمیں جو حرمت دار و رسن بڑھا بھی چکے
چلے ہیں شاہ جی مقتل کو بے خودی اوڑھے
جو حشر آنا ہو آئے بلا سے آ بھی چکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.