جبیں پہ اس در کا پیرا بھی ہے کمر پہ اس گھر کا بار بھی ہے
جبیں پہ اس در کا پیرا بھی ہے کمر پہ اس گھر کا بار بھی ہے
ادھر کے چکتے نہیں تقاضے ادھر سے پیہم پکار بھی ہے
اجاڑ ہو بھی چکا مرا دل مگر ابھی داغ دار بھی ہے
یہی خزاں تھی بہار دشمن جو یادگار بہار بھی ہے
چڑھا کے پی تھی مۓ جوانی غضب تھا شیریں وہ شور پانی
اسی کا دو دن سرور بھی تھا اسی کا اب تک خمار بھی ہے
یہ راہ دور و دراز مجھ کو دکھاتی لائی یہی تماشا
قدم قدم اجتماع بھی ہے نفس نفس انتشار بھی ہے
ہمارے ان کے بس اک محبت خدائی کیا بندگی کہاں کی
بہت ہی نازک ہے گو یہ رشتہ مگر یہی استوار بھی ہے
وہ سوزن فکر جس نے اک دن یہ رخت تہذیب سی دیا تھا
اسی کی کاوش سے آج دیکھو یہ پیرہن تار تار بھی ہے
نہیں کیا شکر زندگی کا مگر شکایت بھی کی نہیں ہے
کہ جس قدر ناگوار ہے یہ اسی قدر خوش گوار بھی ہے
نہیں فقط باؤلی نگاہیں ظہور خود ہے خرام مستی
سکون محمل نشیں کا دشمن یہ ناقۂ بے مہار بھی ہے
نگار خانے میں مہر و مہ کے بہت بھیانک ہے نقش آدم
بلا کا سرکش ازل کا باغی مگر یہی شاہکار بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.