جگا سکے نہ ترے لب لکیر ایسی تھی
جگا سکے نہ ترے لب لکیر ایسی تھی
ہمارے بخت کی ریکھا بھی میرؔ ایسی تھی
یہ ہاتھ چومے گئے پھر بھی بے گلاب رہے
جو رت بھی آئی خزاں کی سفیر ایسی تھی
وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اسے دیتی امیر ایسی تھی
شہادتیں مرے حق میں تمام جاتی تھیں
مگر خموش تھے منصف نظیر ایسی تھی
کتر کے جال بھی صیاد کی رضا کے بغیر
تمام عمر نہ اڑتی اسیر ایسی تھی
پھر اس کے بعد نہ دیکھے وصال کے موسم
جدائیوں کی گھڑی چشم گیر ایسی تھی
بس اک نگاہ مجھے دیکھتا چلا جاتا
اس آدمی کی محبت فقیر ایسی تھی
ردا کے ساتھ لٹیرے کو زاد رہ بھی دیا
تری فراخ دلی میرے ویر ایسی تھی
کبھی نہ چاہنے والوں کا خوں بہا مانگا
نگار شہر سخن بے ضمیر ایسی تھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.