جہان بے ثباتی میں تماشائے جہاں کب تک
جہان بے ثباتی میں تماشائے جہاں کب تک
چمکتے مہر و مہ تارے زمین و آسماں کب تک
شب غم میں تجلی پر نہ اترا اے دل مضطر
ستاروں کی یہ چشمک اور رقص کہکشاں کب تک
سمندر کی خموشی ایک طوفاں ساتھ لائے گی
کسی نا مہرباں کی یہ نگاہ مہرباں کب تک
بڑھائے جا قدم تو بڑھ کے سرگرم عمل ہو جا
یوں ہی تکتا رہے گا سوئے گرد کارواں کب تک
لگا کر آگ خود ہی کیوں نہ بد بختی پہ میں رو لوں
جلائیں آشیاں کو میرے آخر بجلیاں کب تک
یہ بہتر ہے فلک ہونا ہے جو کچھ اب وہ ہو جائے
رہوں تیری بلائے ناگہاں کے درمیاں کب تک
کمال ضبط پر بھی اشک غم آنکھوں سے بہہ نکلے
بھلا روکے سے رک سکتی تھی یہ سیل رواں کب تک
فضائے زیست پر طاری ہے اخترؔ یاس کا عالم
نہ جانے مطلع امید ہوگا زرفشاں کب تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.