جہان گل میں اگر دشت جاں نہیں ہوتا
جہان گل میں اگر دشت جاں نہیں ہوتا
کبھی غزال طلب میہماں نہیں ہوتا
کھلے ہیں بارہ دری کے تمام دروازے
مگر وہ چہرہ کہیں سے عیاں نہیں ہوتا
یہ اور بات کہ لطف شناوری نہ ملے
پہ آنسوؤں کا سمندر کہاں نہیں ہوتا
تڑپ اٹھی تھی جہاں تشنگی کی آخری لو
وہاں سے اب کوئی دریا رواں نہیں ہوتا
عطا نہ کرتا اگر وہ مزاج درویشی
تو میری ذات سے روشن جہاں نہیں ہوتا
مچلتا رہتا ہے کیوں اب بھی تتلیوں کے لئے
یہ طفل عشق مرا کیوں جواں نہیں ہوتا
ہے میرے سامنے خود اپنا آئنہ بھی ضیاؔ
مری نگاہ سے اوجھل جہاں نہیں ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.