جہاں جہاں سے بھی جھلمل تری گزرتی ہے
جہاں جہاں سے بھی جھلمل تری گزرتی ہے
دلوں کو آئنہ کرتی ہوئی گزرتی ہے
نجوم دونوں طرف صف بہ صف کھڑے ہوئے ہیں
فضائے شب سے تری پالکی گزرتی ہے
ترے بغیر ہمیں سانس تک نہیں آتی
کبھی تو اس سے بھی مشکل گھڑی گزرتی ہے
نشاط شام طلسمات کو دوام نہیں
لہو سے موج شفق عارضی گزرتی ہے
افق پہ رہتی نہیں دیر تک چمک میری
شہابی روشنی یک بارگی گزرتی ہے
یہ زندگی بھی عجب ہے کہ دوستوں کے بغیر
کبھی گزرتی نہیں ہے کبھی گزرتی ہے
بس ایک رات کا ٹکڑا ہے کہکشاں آثار
بقایا شب تو اندھیروں میں ہی گزرتی ہے
ہزار حال و مقامات سے گزرتا ہے دل
نظر سے مثنویٔ معنوی گزرتی ہے
حیات اپنے تسلسل میں ہے ابد آہنگ
کہ اک گزر گئی ہے دوسری گزرتی ہے
کثیف دل سے خوشی منعطف نہیں ہوتی
سیاہ شیشے سے کب چاندنی گزرتی ہے
بھچک کے دیکھتے ہیں بیل گاڑیوں والے
سروں سے کوئی اڑن طشتری گزرتی ہے
اگر گزرتا ہے دن مجھ میں چھ مہینوں کا
تو اتنے عرصے کی پھر رات بھی گزرتی ہے
خود اپنی آگ میں جلتی ہے اوندھے منہ گر کر
یہ کس عذاب سے دنیا تری گزرتی ہے
شراب و شہد کی نہریں یہاں نہیں بہتیں
زمیں کے باغ سے خوں کی ندی گزرتی ہے
سمے کے پردۂ سیمیں پہ کیا دکھائیں تمہیں
جو لا شعور سے بے منظری گزرتی ہے
گزار لیتے ہیں آخر گزارنے والے
حیات جیسی بھی اچھی بری گزرتی ہے
جہاں سجود میں گر جانا چاہیے اس کو
وہاں سے خلق خدا سرسری گزرتی ہے
دبوچ لیتا ہے دل کا سیاہ روزن اسے
قریب سے جو کوئی روشنی گزرتی ہے
مکان کوہ ندا کے قریب ہے شاہدؔ
سماعتوں سے نوا نت نئی گزرتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.