جہاں اونچی عمارت ہے وہیں مٹی کا بھی گھر ہے
جہاں اونچی عمارت ہے وہیں مٹی کا بھی گھر ہے
یہ قبرستان کو دیکھو ذرا کتنا برابر ہے
سمندر کی خموشی بھی تو اک دن ٹوٹ جاتی ہے
مگر کیسے بھلا ٹوٹے جو تیرے ان لبوں پر ہے
بہت تڑپا رہے ہو باپ کو رستے میں تم لیکن
اسی رستے میں ہے بیٹا عجب کیسا یہ چکر ہے
حقیقت زندگی کی کھل گئی مجھ پر کہ دنیا میں
زمیں پر سنگ ہے ہیرا مگر مٹی کے اندر ہے
یہ کیسا زخم ہے اب تک ہرا ہے کیوں نہیں بھرتا
یہاں مرہم نہیں ہے وقت کے ہاتھوں میں خنجر ہے
بہت پردے ہیں اس کمبخت کے کردار پر فائزؔ
کہ چاندی کی کوئی پنی کسی پتھر کے اوپر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.