جیسے کہا یہ کوزے نے گرداب کو لپیٹ
جیسے کہا یہ کوزے نے گرداب کو لپیٹ
دل جھٹ سے بول اٹھا کہ سنجاب کو لپیٹ
تو آب زندگی کی حقیقت سمجھ کے تیر
اک آفتاب تھام کے تالاب کو لپیٹ
مجھ سے لپٹ گیا تھا کوئی مثل حادثات
دل بولا اپنے جسم پہ آداب کو لپیٹ
تو بات مان قحط میں کشتی بنا اے دوست
پھر اپنی چپو رانی سے سیلاب کو لپیٹ
چھپتا نہیں ہے رات کی چادر سے چاند بھی
اے یار آستین میں مہتاب کو لپیٹ
پطرسؔ کے دور سے ہی تو لاہوریوں نے عونؔ
لاہور کو کہا ہے کہ پنجاب کو لپیٹ
آخر کسی کا حکم تو ہے اشک اشک کو
بہنے سے پہلے پہلے کسی خواب کو لپیٹ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.