جیسے نئے زمانے کی رفتار گر پڑی
جیسے نئے زمانے کی رفتار گر پڑی
ایسے پرانے وقت کی دیوار گر پڑی
اٹھ اٹھ کے آ تو پہنچی ہیں لہریں ادھر مگر
کیا چیز جانے دریا کے اس پار گر پڑی
اس بار کیا گری ہے کہ کہرام مچ گیا
پگڑی تو اس سے پہلے کئی بار گر پڑی
لفظوں کو ہم نے تول کے رکھا تھا ہونٹ پر
پھر کیوں بحث میں بات وزن دار گر پڑی
بازار میں تو فن کے خریدار اب بھی ہیں
کس نے کہا کہ قیمت فن کار گر پڑی
دن تھا تھکن سے چور افق پہ نڈھال سال
سورج کے ساتھ شام بھی لاچار گر پڑی
دیکھا مخالفوں میں جو شامل رفیق کو
پرویزؔ اپنے ہاتھ سے تلوار گر پڑی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.