جنگل جنگل صحرا صحرا صرف غم افتاد ہوئے
جنگل جنگل صحرا صحرا صرف غم افتاد ہوئے
اہل جنوں پر عشق کی رحمت ویرانے آباد ہوئے
کل تک جو معصوم صفت تھے آج وہی جلاد ہوئے
رفتہ رفتہ شیخ و برہمن کتنے ستم ایجاد ہوئے
موسم گل کے آتے آتے گلچینوں کی سازش سے
کتنے گریباں چاک ہوئے ہیں کتنے گھر برباد ہوئے
دام ہوس ہر ایک نفس ہے برق حسد ہر ایک نظر
نظم گلستاں کیوں کر بدلے صید بھی اب صیاد ہوئے
صدیوں کے اس اجڑے چمن کی خون سے گل کاری ہوگی
سنتے ہیں ارباب محبت زنداں سے آزاد ہوئے
پوچھے کوئی ارباب جفا سے اب یہ پشیمانی کب تک
مدت گزری اہل وفا پر تازہ ستم ایجاد ہوئے
بے ادبی میں جو یکتا ہیں ٹھہرے امام بزم ادب
جن کو شعر نہ کہنا آیا فن کے وہی استاد ہوئے
داغ جدائی کے صدموں سے کیا گزری ہے کس سے کہوں
کیسے کیسے پھول چمن کے نذر غم بیداد ہوئے
تیری خوشی سے ہم کو غرض ہے تیری رضا سے کام ہمیں
شاد ہوئے ہم تیری خاطر تیرے لیے ناشاد ہوئے
قامت موزوں کے افسانے صحن چمن تک جا پہنچے
خوش اندام فصل بہاراں سرد ہوئے شمشاد ہوئے
عہد تغافل کا افسانہ ان سے جمالؔ اب کیا کہئے
لطف و کرم سب بھول گئے ہم جور و ستم سب یاد ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.