جنگل کی طرح پھیلا ہوا ڈر سمیٹ کر
جنگل کی طرح پھیلا ہوا ڈر سمیٹ کر
میں جانا چاہتا ہوں کہیں گھر سمیٹ کر
دنیا سمیٹنے کے طلب گار ہیں بہت
رکھا ہے میں نے خود کو بھی اکثر سمیٹ کر
جی چاہتا ہے رکھ دوں کسی روز آگ پر
غم ہائے روزگار کا دفتر سمیٹ کر
کاٹی ہے رات ہم نے اندھیروں کے درمیاں
آنکھوں میں اپنی صبح کا منظر سمیٹ کر
جیتے جی کوئی ڈال گیا میرے سر پہ خاک
اپنائیت کی ریشمی چادر سمیٹ کر
معصومؔ آسمانوں کی رکھتے تھے جو خبر
وہ روزنوں میں بیٹھ گئے پر سمیٹ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.