جنگل تنازعات کے سب پاک ہو گئے
جتنے ببول تھے مری املاک ہو گئے
پردے نمود صبح کے جب چاک ہو گئے
چہرے غرور شام کے غم ناک ہو گئے
کہتے ہیں رت جگوں کے مزے خاک ہو گئے
کس درجہ شب کے پنچھی بھی چالاک ہو گئے
قدموں میں جن کے دفن تھیں گردوں کی رفعتیں
کیا وہ بگولے دشت کی خوراک ہو گئے
جس طرح چاہتا ہے ہمیں تو برت کے دیکھ
ہم تو خوشی سے خود تری پوشاک ہو گئے
اپنائیت کے نام پہ کتنے ہی سادہ دل
اپنے ہی عہد کے خس و خاشاک ہو گئے
جن کو ہوائے ظلم نے مسمار کر دیا
وہ گھر نشان منزل افلاک ہو گئے
صدیاں مری حیات پہ جب خندہ زن ہوئیں
لمحے مرے وجود کا ادراک ہو گئے
وصفیؔ شناخت عشق کی دشوار ہو گئی
جذبے تمام پیار کے سفاک ہو گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.