جنگلوں کا نہ ہی باغات کا پالا ہوا ہے
جنگلوں کا نہ ہی باغات کا پالا ہوا ہے
یہ کبوتر تو مرے ہاتھ کا پالا ہوا ہے
امن کا یہ جو پرندہ ہے اماں میں میری
یہ مری نیت اثبات کا پالا ہوا ہے
جس کو بھی دیکھیے وہ قحط کا لگتا ہے شکار
جبکہ یہ قحط بھی برسات کا پالا ہوا ہے
سوز تو اس میں نہیں ہے مگر اک ہوک سی ہے
دل کا یہ زخم تو خدشات کا پالا ہوا ہے
میں غلط ہو نہیں سکتا ہوں کسی بھی صورت
یہ تصور ہی خرافات کا پالا ہوا ہے
ہر سمجھ دار اسے شیخ سمجھنے لگ جائے
ہر غلام ایسا جو سادات کا پالا ہوا ہے
جانے کیسے یہ سمجھ لیتا ہے دل کی ہلچل
کیا مرا ذہن اشارات کا پالا ہوا ہے
آج اسی زہر کو پینا ہے تمہیں بھی اخترؔ
ہاں وہی زہر جو سقراط کا پالا ہوا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.