جذبات دل کبھی جو رقم کر دئے گئے
جذبات دل کبھی جو رقم کر دئے گئے
اہل قلم کے ہاتھ قلم کر دئے گئے
اک روز ہم بھی ہوں گے فراموش جس طرح
پہلے مسافران عدم کر دئے گئے
یوں اہتمام جشن بہاراں کیا گیا
دامن گلوں کے اشکوں سے نم کر دئے گئے
وابستگان دیر و حرم دیکھتے رہے
اور گل چراغ دیر و حرم کر دئے گئے
مجبور ترک رسم محبت کے واسطے
تم کر دئے گئے کبھی ہم کر دئے گئے
اے انقلاب کھول دے پرچم کہ سرنگوں
اگلی شرافتوں کے علم کر دئے گئے
منہ میں زبان رکھتے ہوئے بے زبان ہیں
خاموش کیسے ڈھنگ سے ہم کر دئے گئے
افسوس جو تمہارے کرم کے تھے مستحق
ان پر ہی ختم سارے ستم کر دئے گئے
تن سے جدا تو ہو گئے لیکن اٹھے نہیں
سر اس طرح بھی سجدوں میں خم کر دئے گئے
باقی تھے اپنے پاس جو قطرات خون دل
وہ سب سپرد نوک قلم کر دئے گئے
اب ختم ہو چکا حق و باطل کا امتیاز
دونوں کچھ اس طرح سے بہم کر دئے گئے
ہر آستاں کو جن کی رہی جستجو وہ سر
اک آستان ناز پہ خم کر دئے گئے
حد ہے ستم نصیبوں کو یہ بھی خبر نہیں
کیا جرم تھا جو وقف ستم کر دئے گئے
راہیؔ مسرتوں کے سفینوں کو کیا ہوا
شاید وہ غرق بحر الم کر دئے گئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.