جھلک پردے سے یوں رہ رہ کے دکھلانے سے کیا حاصل
جھلک پردے سے یوں رہ رہ کے دکھلانے سے کیا حاصل
یہ ٹھنڈی گرمیاں بھی درمیاں لانے سے کیا حاصل
رہے جب خاک پائے شمع پر جل کر تو جلنا ہے
نہیں گریہ تو پروانوں کے جل جانے سے کیا حاصل
ابد تک سانس لینے اور غم سہنے میں لذت ہے
دیار عشق میں گھبرا کے مر جانے سے کیا حاصل
نہیں ہوتا ہے کوئی کام ہرگز وقت سے پہلے
امید و آرزو میں دل کو تڑپانے سے کیا حاصل
نہ یوں ٹوٹیں نہ ٹوٹیں گی کبھی زنداں کی دیواریں
کوئی سر پھوڑ کر مر جائے مر جانے سے کیا حاصل
ترس آیا ہے ظالم کو نہ آئے کم نصیبوں پر
ترس ہی آ گیا جب تو ستم ڈھانے سے کیا حاصل
اگر مے خوار اک اک بوند کو ساقی ترس جائیں
ترے جام و سبو سے تیرے میخانے سے کیا حاصل
محبت کا کہیں دامن بھرا ہے بھیک مانگے سے
تمہیں کہہ دو ہمارے ہات پھیلانے سے کیا حاصل
ابھی باقی ہے اک امید مرگ ناگہاں لیکن
اسی زنداں میں پھر آئے تو مر جانے سے کیا حاصل
اسی کے تیوروں کو دیکھتی رہتی ہیں تقدیریں
دل راحت طلب بے چین ہو جانے سے کیا حاصل
جگرؔ اپنے لئے جینا کوئی جینے میں جینا ہے
نہ کام آئیں کسی کے تو جئے جانے سے کیا حاصل
جگرؔ ہے زندگی جب تک کہ گرمی ہے محبت کی
ہوا جب سرد سینہ تو جیے جانے سے کیا حاصل
- کتاب : Partav-e-ilhaam (Pg. 226)
- Author : Jigar Barelvi
- مطبع : Publisher Nizami Book Agency, Budaun (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.