جدھر سے تیر چلا کوئی مہرباں نکلا
جدھر سے تیر چلا کوئی مہرباں نکلا
توقعات سے بڑھ کر وہ میزباں نکلا
ثمر سے پہلے شجر کاٹ کر جلا ڈالے
کہ جلدباز بہت اب کے باغباں نکلا
عجیب رنگ ہوا اب کے میری نگری کا
کہ جو بھی شہر میں نکلا وہ بے اماں نکلا
یہ کس عذاب نے بستی کو میری گھیر لیا
کہ چولھے سرد رہے یاں مگر دھواں نکلا
سوال یہ ہے سبب کس سے قتل کا پوچھیں
کہ جس نے قتل کیا وہ ہی بے زباں نکلا
ہمارے بعد بھی کیا زیب دار ہوگا کوئی
یہی سوال مرا زیب داستاں نکلا
ہم اپنی عقل کو الزام دیں کہ قسمت کو
ہمارے دور میں رہزن بھی پاسباں نکلا
جبیں جھکی تو زمیں اٹھ کے عاجزی سے ملی
جو سر اٹھا تو بہت دور آسماں نکلا
رہے ہیں ہم تو کرامتؔ گئے دنوں کے نقیب
کہ ہم سے عہد نیا سخت بد گماں نکلا
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 530)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.