جی لرزتا ہے امڈتی ہوئی تنہائی سے
جی لرزتا ہے امڈتی ہوئی تنہائی سے
اب نکالو مجھے اس رات کی پہنائی سے
آئی یادوں کی ہوا گھلنے لگا کان میں زہر
بجھ گئی شام بھی بجتی ہوئی شہنائی سے
پوچھتا پھرتا ہوں گلیوں کے اجڑنے کا سبب
ہر طرف جمع ہیں کیا لوگ تماشائی سے
سامنے پھیلا ہوا دشت کا سناٹا ہے
اب کہاں بچ کے چلیں ہم دل سودائی سے
بن گیا ایک قیامت در دل تک آنا
اور گزرنا ہے ابھی دھیان کی انگنائی سے
کس طرح اپنا بنائیں اسے ہم اے جعفرؔ
بات آگے نہ بڑھی جس کی شناسائی سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.