جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجیے
جی میں آتا ہے کہ پھر مژگاں کو برہم کیجیے
کاسۂ دل لے کے پھر دریوزۂ غم کیجیے
گونجتا تھا جس سے کوہ بے ستون و دشت نجد
گوش جاں کو پھر انہیں نالوں کا محرم کیجیے
حسن بے پروا کو دے کر دعوت لطف و کرم
عشق کے زیر نگیں پھر ہر دو عالم کیجیے
دور پیشیں کی طرح پھر ڈالیے سینے میں زخم
زخم کی لذت سے پھر تیار مرہم کیجیے
صبح سے تا شام رہیے قصۂ عارض میں گم
شام سے تا صبح ذکر زلف برہم کیجیے
دن کے ہنگاموں کو کیجیے دل کے سناٹے میں غرق
رات کی خاموشیوں کو وقف ماتم کیجیے
دائمی آلام کا خوگر بنا کر روح کو
ناگہانی حادثوں کی گردنیں خم کیجیے
غیظ کی دوڑی ہوئی ہے لہر سی اصنام میں
جوشؔ اب اہل حرم سے دوستی کم کیجیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.