جینے کے ڈھب جب آئے تو مرنا پڑا مجھے
جینے کے ڈھب جب آئے تو مرنا پڑا مجھے
کس غم سے رم کیا کہ ٹھہرنا پڑا مجھے
میں اور اپنی جان کا دشمن نہیں نہیں
ایسی ہی وہ ادا تھی جو مرنا پڑا مجھے
کچھ خود مجھے ابھار گئی رفعت جمال
کچھ آپ پستیوں سے ابھرنا پڑا مجھے
حالانکہ اپنے آپ سے میں دور بھی نہ تھا
کتنے ہی راستوں سے گزرنا پڑا مجھے
غنچے کی طرح شب قفس رنگ و بو رہا
مانند گل سحر کو بکھرنا پڑا مجھے
اپنے ہی ہاتھوں آپ کو کھینچا صلیب پر
ماتم بھی اپنا آپ ہی کرنا پڑا مجھے
پھر کیا جو میں زمیں سے گیا تا بہ آسماں
آخر اسی زمیں پہ اترنا پڑا مجھے
کیا ڈھونڈتے ہو اب مرے لب پر شگفتگی
اک زخم تھا کہ خود جسے بھرنا پڑا مجھے
عرفیؔ سناؤ مژدہ مرے خیر خواہ کو
بگڑا زمانہ یہ کہ سدھرنا پڑا مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.