جینے کے لیے جینے کے سامان بہت ہیں
جینے کے لیے جینے کے سامان بہت ہیں
یہ بات الگ لوگ پریشان بہت ہیں
ویسے تو لبوں پر ہیں تبسم کی پھواریں
جھانکے جو کوئی دل میں تو طوفان بہت ہیں
اب ان کے تغافل کا گلہ ان سے کریں کیا
سنتے ہیں کہ وہ خود ہی پشیمان بہت ہیں
نفرت کی ہواؤں سے گھری شمع محبت
بجھ جانے کے اس دور میں امکان بہت ہیں
کرتے ہیں گنہ رکھتے ہیں امید کرم جو
وہ لوگ بھی میری طرح نادان بہت ہیں
لے آئی ہے اب زیست وہاں پر کہ جہاں سے
آگے کے سبھی راستے ویران بہت ہیں
وہ لاکھ برا ہے تو مجھے اس سے غرض کیا
مجھ پر مگر اس شخص کے احسان بہت ہیں
کیوں ان سے بچھڑ کر بھی جیے جاتے ہیں گلشنؔ
ہم آج یہی سوچ کے حیران بہت ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.