جینے لگتا ہے زندگی کے بغیر
جینے لگتا ہے زندگی کے بغیر
کوئی مرتا نہیں کسی کے بغیر
شاعری درد زندگی کے بغیر
جیسے امت کوئی نبی کے بغیر
وہ دیے بھی ہوا نے دیکھ لیے
جل رہے تھے جو روشنی کے بغیر
ہم تری آرزو کے دفتر میں
کام کرتے ہیں سیلری کے بغیر
کتنی باتیں ہیں جن کو دیوانے
کہہ نہیں سکتے خامشی کے بغیر
جی رہا ہوں میں ہجر میں ایسے
جیسے چنگیز خاں خودی کے بغیر
ہم سے سیکھو کہ اپنی مرضی سے
کیسے مرتے ہیں خود کشی کے بغیر
پھر مرے ذہن میں کئی جنات
رقص کرنے لگے پری کے بغیر
- کتاب : ہجر کی دوسری دوا (Pg. 24)
- Author : فہمی بدایونی
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.