جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے
دلچسپ معلومات
آل انڈیا مشاعرہ کانپور 11 ؍جنوری 1930
جینے والا یہ سمجھتا نہیں سودائی ہے
زندگی موت کو بھی ساتھ لگا لائی ہے
یہ بھی مشتاق ادا وہ بھی تمنائی ہے
کھنچ کے دنیا ترے کوچے میں چلی آئی ہے
کھل گئے نزع میں اسرار طلسم ہستی
زیست کہتے ہیں جسے موت کی انگڑائی ہے
کہہ گئے اہل چمن یہ ترے دیوانوں سے
ہوش میں آؤ زمانے میں بہار آئی ہے
میں کسی روز دکھاؤں دل صد چاک ادا
تجھ کو معلوم تو ہو کیا تری انگڑائی ہے
ڈھونڈھتی کیوں نہ رہے اس کو ابد تک دنیا
جس نے چھپنے کی ازل ہی میں قسم کھائی ہے
پھوٹ کر پاؤں کے چھالے مرے لائے یہ رنگ
باغ تو باغ ہے صحرا میں بہار آئی ہے
جلوۂ روز ازل نے مجھے بے چین کیا
پہلی دنیا میں یہ پہلی تری انگڑائی ہے
جس کی صحت کے لئے آپ دعائیں مانگیں
ایسے بیمار کو بھی موت کہیں آئی ہے
تیغ قاتل کو پس قتل ندامت ہوگی
دم سے بسملؔ ہی کے یہ معرکہ آرائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.