جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے
جیت کی اور نہ ہار کی ضد ہے
دل کو شاید قرار کی ضد ہے
کوئی بھی تو نہیں تعاقب میں
جانے کس سے فرار کی ضد ہے
ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں سناٹے
پر ہمیں انتظار کی ضد ہے
عشق چاہے کہ لب کو جام لکھے
حسن کو انکسار کی ضد ہے
بارہا ہم نے سنگسار کیا
پر اسے اعتبار کی ضد ہے
ایک انجام طے شدہ کے لیے
پھر خزاں کو بہار کی ضد ہے
اک بار اس سے کیا ملیں نظریں
دل کو اب بار بار کی ضد ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.