جیتے جی دکھ سکھ کے لمحے آتے جاتے رہتے ہیں
جیتے جی دکھ سکھ کے لمحے آتے جاتے رہتے ہیں
ہم تو ذرا سی بات پہ پہروں اشک بہاتے رہتے ہیں
وہ اپنے ماتھے پر جھوٹے روگ سجا کر پھرتے ہیں
ہم اپنی آنکھوں کے جلتے زخم چھپاتے رہتے ہیں
سوچ سے پیکر کیسے ترشے سوچ کا انت نرالا ہے
خاک پہ بیٹھے آڑے ترچھے نقش بناتے رہتے ہیں
ساحل ساحل دار سجے ہیں موج موج زنجیریں ہیں
ڈوبنے والے دریا دریا جشن مناتے رہتے ہیں
اخترؔ اب انصاف کی آنکھیں زر کی کھنک سے کھلتی ہیں
ہم پاگل ہیں لوہے کی زنجیر ہلاتے رہتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.