جن لاشوں پر جینے کا الزام بھی تھا
جن لاشوں پر جینے کا الزام بھی تھا
ان کی صف میں شامل میرا نام بھی تھا
تجھ سے مل کر جب بھی واپس لوٹا ہوں
یاد آیا کہ تجھ سے کوئی کام بھی تھا
پھر وہ میری خاک بچھا کر لیٹ گیا
شاید میرا قاتل بے آرام بھی تھا
ہم تو لکھ کر ناحق ہی بدنام ہوئے
جن باتوں کا ویسے چرچا عام بھی تھا
قحط کی آفت سارا گاؤں چاٹ گئی
اس گاؤں میں غلے کا گودام بھی تھا
بستی کیا تھی صرف سرائے عبرت تھی
شہر کا شہر وہ شرم کا ایک مقام بھی تھا
لوگ مجھے دیوانہ وار رگڑتے تھے
میرے اندر شاید ایک غلام بھی تھا
رستے میں موجود خلیجیں نفرت کی
میرے پاس محبت کا پیغام بھی تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.