جس باغ کا پودا ہے ادھر کیوں نہیں لگتا
جس باغ کا پودا ہے ادھر کیوں نہیں لگتا
وہ زخم مجھے بار دگر کیوں نہیں لگتا
ہم دونوں کی ویرانی بھی شامل ہے تو یہ دشت
کیوں دشت نظر آتا ہے گھر کیوں نہیں لگتا
ویسے میں تماشا تو تجھے لگتا ہوں اب بھی
اک بار ذرا دیکھ ادھر کیوں نہیں لگتا
کیوں خرچ کیے جاتا ہوں تیری بھی اداسی
اب تیرا ضرر اپنا ضرر کیوں نہیں لگتا
یہ ان چھوئے احساس کی ہر پور میں گردش
اس طرح ہمیں زندگی بھر کیوں نہیں لگتا
اچھا در تنہائی کھلا رہنے دوں یعنی
دیوار سے لگ جاؤں مگر کیوں نہیں لگتا
کیا ہے کہ کبھی پھولوں میں ڈھلتی نہیں کلیاں
یہ غم کا شجر ہے تو ثمر کیوں نہیں لگتا
کیوں روح نہیں کانپتی کچھ سوچ کے شارقؔ
ڈرتا ہوں کہ اب ہجر سے ڈر کیوں نہیں لگتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.