جس دن تلک اثر مری آہ و فغاں میں تھا
جس دن تلک اثر مری آہ و فغاں میں تھا
بتلاؤ کون چین سے سویا جہاں میں تھا
رکھتے تھے ہم بغل میں دل گرم وہ کہ بس
پڑ جاتا جس کے نام سے چھالا زباں میں تھا
عاشق کا کہیو پہلے ہی واں کام ہو گیا
تیرا ہنوز تیر پری رو کماں میں تھا
اے برق جس کی لاکھ جہنم تھے جیب میں
ایک اک شرر وہ نالۂ آتش فشاں میں تھا
لاکھوں کے دل کو باتوں ہی باتوں میں لے گیا
افسوں کہوں کہ سحر کہوں کیا بیاں میں تھا
آیا تھا کون سیر کو سچ کہیو عندلیب
جو شور الاماں کا پڑا گلستاں میں تھا
کیا پاس عشق ہے کہ موئے پر بھی راز عشق
سربستہ ووں ہی ہر قلم استخواں میں تھا
وہ گرم صرف ناز تھے واں بزم غیر میں
سرگرم اس طرف مرا دل صرف جاں میں تھا
چومے تھے کس کے ہونٹ کہ جو مرتے دم مزہ
تلخی کے بدلے قند کا میرے دہاں میں تھا
کچھ کیا چکا نسیم سحر برگ گل پہ کل
جھگڑا جو عندلیب میں اور باغباں میں تھا
ہاں واقعی ہے تم تو نہ تھے بزم غیر میں
افسوں مجھی کو پڑھ کے دیا برگ پاں میں تھا
بلبل کو باغ میں جو تڑپنے دیا بھلا
جز خار اس کے اور بھی کچھ آشیاں میں تھا
وہ ناتواں تھا دل عاشق کہ جس کا آہ
نالہ کبھی زمین و کبھی آسماں میں تھا
شب خواب میں معاملہ اس مہ جبیں سے عیشؔ
وہ پٹ گیا جو اپنے نہ وہم و گماں میں تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.